جتنا تھا سرگرم کار اتنا ہی دل ناکام تھا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
جتنا تھا سرگرم کار اتنا ہی دل ناکام تھا
by آرزو لکھنوی

جتنا تھا سرگرم کار اتنا ہی دل ناکام تھا
ہوش جس کا نام ہے وہ بھی جنون خام تھا

ہوش کا ضامن تھا ساقی کیف پرور دل کا شوق
جام تھا پاس اور بے اندیشۂ انجام تھا

ختم کرتی جلد کیوں کر زیست کی منزل کو سانس
پھیر کوسوں کا تھا لیکن فاصلہ اک گام تھا

جوش شوریدہ سری تھا تا بہ وہم اختیار
تھک کے دم ٹوٹا تو پھر آرام ہی آرام تھا

اب کہاں وہ آمد و رفت نفس کی شاہ راہ
اک کشاکش تھی کہ جس کا زندگانی نام تھا

چونک کر خود منظر ہستی سے آنکھیں پھیر لیں
ہچکیاں کاہے کو تھیں پوشیدہ اک پیغام تھا

گل ہوا آخر بھڑک کر شعلۂ جوش شباب
تھی کف موج حوادث اور چراغ شام تھا

بے جلے کس طرح بنتا شمع پروانے کا دل
وہ اسے انجام کیا دیتے جو میرا کام تھا

تم نے خود ناکام رکھ کے اس کی ہمت کی تھی پست
آرزوئے بے گنہ پر مفت کا الزام تھا

This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.

Public domainPublic domainfalsefalse