جتاتے رہتے ہیں یہ حادثے زمانے کے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
جتاتے رہتے ہیں یہ حادثے زمانے کے
by سائل دہلوی

جتاتے رہتے ہیں یہ حادثے زمانے کے
کہ تنکے جمع کریں پھر نہ آشیانے کے

سبب یہ ہوتے ہیں ہر صبح باغ جانے کے
سبق پڑھاتے ہیں کلیوں کو مسکرانے کے

ہزاروں عشق جنوں خیز کے بنے قصے
ورق ہوے جو پریشاں مرے فسانے کے

ہیں اعتبار سے کتنے گرے ہوے دیکھا
اسی زمانے میں قصے اسی زمانے کے

قرار جلوہ نمائی ہوا ہے فردا پر
یہ طول دیکھیے اک مختصر زمانے کے

نہ پھول مرغ چمن اپنی خوشنوائی پر
جواب ہیں مرے نالے ترے ترانے کے

اسی کی خاک ہے ماتھے کی زیب بندہ نواز
جبیں پہ نقش پڑے ہیں جس آستانے کے

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse