جتائے جاتے ہیں احسان بھی ستا کے مجھے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
جتائے جاتے ہیں احسان بھی ستا کے مجھے
by بیخود دہلوی

جتائے جاتے ہیں احسان بھی ستا کے مجھے
سکھا رہے ہیں وہ گویا چلن وفا کے مجھے

رکھا نہ ہم کو کہیں کا تری محبت نے
وہ کہہ رہے ہیں عدو سے سنا سنا کے مجھے

تمیز عشق و ہوس پیشتر نہ تھی ان کو
وہ اور ہو گئے مغرور آزما کے مجھے

شب وصال ادائیں بھی ہیں جفائیں بھی
دکھائے جاتے ہیں انداز کس بلا کے مجھے

جو سیر دیکھنی منظور ہے تمہیں بیخودؔ
بھڑا دو حضرت زاہد سے مے پلا کے مجھے

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse