جب یاس ہوئی تو آہوں نے سینے سے نکلنا چھوڑ دیا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
جب یاس ہوئی تو آہوں نے سینے سے نکلنا چھوڑ دیا
by اکبر الہ آبادی

جب یاس ہوئی تو آہوں نے سینے سے نکلنا چھوڑ دیا
اب خشک مزاج آنکھیں بھی ہوئیں دل نے بھی مچلنا چھوڑ دیا

ناوک فگنی سے ظالم کی جنگل میں ہے اک سناٹا سا
مرغان خوش الحاں ہو گئے چپ آہو نے اچھلنا چھوڑ دیا

کیوں کبر و غرور اس دور پہ ہے کیوں دوست فلک کو سمجھا ہے
گردش سے یہ اپنی باز آیا یا رنگ بدلنا چھوڑ دیا

بدلی وہ ہوا گزرا وہ سماں وہ راہ نہیں وہ لوگ نہیں
تفریح کہاں اور سیر کجا گھر سے بھی نکلنا چھوڑ دیا

وہ سوز و گداز اس محفل میں باقی نہ رہا اندھیر ہوا
پروانوں نے جلنا چھوڑ دیا شمعوں نے پگھلنا چھوڑ دیا

ہر گام پہ چند آنکھیں نگراں ہر موڑ پہ اک لیسنس طلب
اس پارک میں آخر اے اکبرؔ میں نے تو ٹہلنا چھوڑ دیا

کیا دین کو قوت دیں یہ جواں جب حوصلہ افزا کوئی نہیں
کیا ہوش سنبھالیں یہ لڑکے خود اس نے سنبھلنا چھوڑ دیا

اقبال مساعد جب نہ رہا رکھے یہ قدم جس منزل میں
اشجار سے سایہ دور ہوا چشموں نے ابلنا چھوڑ دیا

اللہ کی راہ اب تک ہے کھلی آثار و نشاں سب قائم ہیں
اللہ کے بندوں نے لیکن اس راہ میں چلنا چھوڑ دیا

جب سر میں ہوائے طاعت تھی سرسبز شجر امید کا تھا
جب صرصر عصیاں چلنے لگی اس پیڑ نے پھلنا چھوڑ دیا

اس حور لقا کو گھر لائے ہو تم کو مبارک اے اکبرؔ
لیکن یہ قیامت کی تم نے گھر سے جو نکلنا چھوڑ دیا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse