جب یار نے اٹھا کر زلفوں کے بال باندھے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
جب یار نے اٹھا کر زلفوں کے بال باندھے
by مرزا محمد رفیع سودا

جب یار نے اٹھا کر زلفوں کے بال باندھے
تب میں نے اپنے دل میں لاکھوں خیال باندھے

دو دن میں ہم تو ریجھے اے وائے حال ان کا
گزرے ہیں جن کے دل کو یاں ماہ و سال باندھے

تار نگہ میں اس کے کیونکر پھنسے نہ یہ دل
آنکھوں نے جس کے لاکھوں وحشی غزال باندھے

جو کچھ ہے رنگ اس کا سو ہے نظر میں اپنی
گو جامہ زرد پہنے یا چیرہ لال باندھے

تیرے ہی سامنے کچھ بہکے ہے میرا نالہ
ورنہ نشانے ہم نے مارے ہیں بال باندھے

بوسہ کی تو ہے خواہش پر کہیے کیونکہ اس سے
جس کا مزاج لب پر حرف سوال باندھے

ماروگے کس کو جی سے کس پر کمر کسی ہے
پھرتے ہو کیوں پیارے تلوار ڈھال باندھے

دو چار شعر آگے اس کے پڑھے تو بولا
مضموں یہ تو نے اپنے کیا حسب حال باندھے

سوداؔ جو ان نے باندھا زلفوں میں دل سزا ہے
شعروں میں اس کے تو نے کیوں خط و خال باندھے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse