جب ہوئے تم چمن میں آن کھڑے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
جب ہوئے تم چمن میں آن کھڑے
by جوشش عظیم آبادی

جب ہوئے تم چمن میں آن کھڑے
ووہیں ہو گئے گلوں کے کان کھڑے

شکر غم ہے کہ دل کے میداں میں
آہ و نالے کے ہیں نشان کھڑے

بیٹھنے کی نہیں رہی طاقت
ہوویں کیا ہم سے ناتوان کھڑے

اس تلک بال شوق لے پہنچا
رہ گئے در پہ داربان کھڑے

اس کے تیر نگاہ کی دولت
ہیں در دل پہ میہمان کھڑے

بے سبب ہم سے روٹھے جاتے ہو
سن لو ٹک ہو کے مہربان کھڑے

دین و ایمان و جان دینے کو
ہم تو ہیں رو بہ رو ہر آن کھڑے

آج وہ امتحان لے ؔجوشش
ہم بھی ہیں بہر امتحان کھڑے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse