جب ہم نشیں ہمارا بھی عہد شباب تھا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
جب ہم نشیں ہمارا بھی عہد شباب تھا
by نظیر اکبر آبادی

جب ہم نشیں ہمارا بھی عہد شباب تھا
کیا کیا نشاط و عیش سے دل کامیاب تھا

حیرت ہے اس کی زود روی کیا کہیں ہم آہ
نقش طلسم تھا وہ کوئی یا حباب تھا

تھا جب وہ جلوہ گر تو دل و جاں میں دم بدم
عشرت کی حد نہ عیش و طرب کا حساب تھا

تھے باغ زندگی کے اسی سے ہی آب و رنگ
دیوان عمر کا بھی وہی انتخاب تھا

اپنی تو فہم میں وہی ہنگام اے نظیرؔ
مجموعۂ حیات کا لب لباب تھا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse