جب ہم بغل وہ سرو قبا پوش ہو گیا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
جب ہم بغل وہ سرو قبا پوش ہو گیا
by منیرؔ شکوہ آبادی

جب ہم بغل وہ سرو قبا پوش ہو گیا
قمری کا طوق حلقۂ آغوش ہو گیا

اشعار میرے سن کے وہ خاموش ہو گیا
غنچہ برنگ گل ہمہ تن گوش ہو گیا

پی غیر نے شراب مجھے بے خودی ہوئی
نشہ چڑھا کسی کو میں بے ہوش ہو گیا

اس درجہ بے خودی نے دکھائیں تعلیاں
گردوں غبار قافلۂ ہوش ہو گیا

تیغ اجل کی کاٹ سے ڈرتا نہیں ہوں میں
زخموں سے جسم زار ذرہ پوش ہو گیا

اے بت خیال وصف دہن میں نہ پائی راہ
بھٹکا پھرا سخن جو میں خاموش ہو گیا

خوں خواروں کے حضور نہ آیا ہماری طرح
آئینہ جوہروں سے ذرہ پوش ہو گیا

طالع جگائے آپ نے ارباب عشق کے
یوسف کا حسن خواب فراموش ہو گیا

پنہاں ہے زیر سبزۂ خط آتش عذار
شعلہ فسون حسن سے خس پوش ہو گیا

حوریں گلے لپٹتی ہیں آ آ کے رات دن
جنت کی راہ کوچۂ آغوش ہو گیا

اس مست حسن کی نگہ گرم کے حضور
آئینۂ جام بادۂ سرجوش ہو گیا

بے لطفیوں سے تم جو ملے میں نے جان دی
پھانسی گلے میں حلقۂ آغوش ہو گیا

ابر سیہ کے سایہ نے سرمہ کھلا دیا
سبزہ تمام طوطی خاموش ہو گیا

کاندھوں سے میرے کاتب اعمال گر پڑے
تڑپا میں اس قدر کہ سبک دوش ہو گیا

کانوں کا حسن جلوۂ عارض سے پڑ گیا
رخ آفتاب صبح بنا گوش ہو گیا

اڑتا ہوں عشق میں لب لعلیں کے اے منیرؔ
گویا شرار آتش خاموش ہو گیا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse