جب کے رسوا ہوئے انکار ہے سچ بات میں کیا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
جب کے رسوا ہوئے انکار ہے سچ بات میں کیا
by حیدر علی آتش

جب کے رسوا ہوئے انکار ہے سچ بات میں کیا
اے صنم لطف ہے پردے کی ملاقات میں کیا

کوئی اندھا ہی تجھے ماہ کہے اے خورشید
فرق ہوتا نہیں انسان سے دن رات میں کیا

یار نے وعدۂ فردائے قیامت تو کیا
شک ہے اے نالۂ دل تیری کرامات میں کیا

کوئی بت خانے کو جاتا ہے کوئی کعبہ کو
پھر رہے گبر و مسلماں ہیں تری گھات میں کیا

ایک مدت سے ہوں سائل ترے دروازے پر
بوسہ یا گالی ملے گا مجھے خیرات میں کیا

ایسی اونچی بھی تو دیوار نہیں گھر کی ترے
رات اندھیری کوئی آوے گی نہ برسات میں کیا

دو گھڑی کی جو ملاقات تھی وہ بھی موقوف
ایسا پڑتا تھا خلل یار کی اوقات میں کیا

پڑھ کے خط اور بھی مایوس ہوئے وصل سے ہم
یار نے بھیجا سفر سے ہمیں سوغات میں کیا

آتش مست جو مل جائے تو پوچھوں اس سے
تو نے کیفیت اٹھائی ہے خرابات میں کیا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse