جب کہ فرقت میں موت آتی ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
جب کہ فرقت میں موت آتی ہے
by میر مظفر حسین ضمیر

جب کہ فرقت میں موت آتی ہے
حسرت وصل ساتھ جاتی ہے

کیوں صبا قبر بے کساں پہ کبھی
نہیں دو پھول بھی چڑھاتی ہے

بھول جاتی ہے قبر کی ظلمت
یاد زلف سیہ جو آتی ہے

جو ترا غم ہمیشہ کھاتا تھا
اب اسے خاک گور کھاتی ہے

کون اس خاک پر خراماں ہے
روح پھولے نہیں سماتی ہے

یہاں نقشہ بگڑ گیا اپنا
وہ پری آپ کو بناتی ہے

نہ چراغاں ہو قبر پر تو کیا
بے کسی تو جگر جلاتی ہے

جا کے کر دو قدم تو استقبال
تیرے کشتہ کی لاش آتی ہے

نہ پدر کو خبر نہ مادر کو
بے کسی کیا مزے دکھاتی ہے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse