جب کہا میں ہوں ترے عشق میں بدنام کہ تو

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
جب کہا میں ہوں ترے عشق میں بدنام کہ تو
by مضطر خیرآبادی

جب کہا میں ہوں ترے عشق میں بدنام کہ تو
ہنس کے کس ناز سے بولا بت خود کام کہ تو

کون سی راہ چلوں کفر محبت سچ کہہ
کام آئے گا وہاں مذہب اسلام کہ تو

دھوکے دے دے کہ مرا وقت کٹا ہے کہ ترا
وعدے کر کر کے میں سویا ہوں سر شام کہ تو

پردہ اٹھنے سے مرا راز کھلا ہے کہ ترا
گھر سے نکلا ہے ترے ساتھ مرا نام کہ تو

کچھ تو کہہ اے دل بے تاب ارادے کیا ہیں
نامہ بر جائے گا لے کر مرا پیغام کہ تو

خاتمہ ہجر کی شب کون کرے گا میرا
حسرت وصل کا بگڑا ہوا انجام کہ تو

ساعت عیش دو روزہ تری حاجت کیا ہے
غم جاوید نکالے گا مرا کام کہ تو

کون پیتا ہے محبت کا پیالہ پی لے
مدعی لے گا مرے ہاتھ سے اک جام کہ تو

میں نے سوچا کہ نگاہیں انہیں ڈھونڈیں کہ خیال
ناگہاں بول اٹھی گردش ایام کہ تو

تجھ کو کیوں رنجش بے جا ہے عدو کا کھٹکا
میں اٹھاؤں گا محبت میں یہ الزام کہ تو

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse