جب کبھی دریا میں ہوتے سایہ افگن آپ ہیں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
جب کبھی دریا میں ہوتے سایہ افگن آپ ہیں
by بہادر شاہ ظفر

جب کبھی دریا میں ہوتے سایہ افگن آپ ہیں
فلس ماہی کو بتاتے ماہ روشن آپ ہیں

سیتے ہیں سوزن سے چاک سینہ کیا اے چارہ ساز
خار غم سینے میں اپنے مثل سوزن آپ ہیں

پیار سے کر کے حمائل غیر کی گردن میں ہاتھ
مارتے تیغ ستم سے مجھ کو گردن آپ ہیں

کھینچ کر آنکھوں میں اپنی سرمۂ دنبالہ دار
کرتے پیدا سحر سے نرگس میں سوسن آپ ہیں

دیکھ کر صحرا میں مجھ کو پہلے گھبرایا تھا قیس
پھر جو پہچانا تو بولا حضرت من آپ ہیں

جی دھڑکتا ہے کہیں تار رگ گل چبھ نہ جائے
سیج پر پھولوں کی کرتے قصد خفتن آپ ہیں

کیا مزا ہے تیغ قاتل میں کہ اکثر صید عشق
آن کر اس پر رگڑتے اپنی گردن آپ ہیں

مجھ سے تم کیا پوچھتے ہو کیسے ہیں ہم کیا کہیں
جی ہی جانے ہے کہ جیسے مشفق من آپ ہیں

پر غرور و پر تکبر پر جفا و پر ستم
پر فریب و پر دغا پر مکر و پر فن آپ ہیں

ظلم پیشہ ظلم شیوہ ظلم ران و ظلم دوست
دشمن دل دشمن جاں دشمن تن آپ ہیں

یکہ تاز و نیزہ باز و عربدہ جو تند خو
تیغ زن دشنہ گزار و ناوک افگن آپ ہیں

تسمہ کش طراز و غارت گر تاراج ساز
کافر یغمائی و قزاق رہزن آپ ہیں

فتنہ جو بیداد گر سفاک و اظلم کینہ ور
گرم جنگ و گرم قتل و گرم کشتن آپ ہیں

بدمزاج و بددماغ و بدشعار و بدسلوک
بد طریق و بدزباں بدعہد و بدظن آپ ہیں

بے مروت بے وفا نامہرباں نا آشنا
میرے قاتل میرے حاسد میرے دشمن آپ ہیں

اے ظفرؔ کیا پائے قاتل کے ہے بوسے کی ہوس
یوں جو بسمل ہو کے سرگرم طپیدن آپ ہیں

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse