جب چلا وہ مجھ کو بسمل خوں میں غلطاں چھوڑ کر

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
جب چلا وہ مجھ کو بسمل خوں میں غلطاں چھوڑ کر
by محمد ابراہیم ذوق

جب چلا وہ مجھ کو بسمل خوں میں غلطاں چھوڑ کر
کیا ہی پچھتاتا تھا میں قاتل کا داماں چھوڑ کر

میں وہ مجنوں ہوں جو نکلوں کنج زنداں چھوڑ کر
سیب جنت تک نہ کھاؤں سنگ طفلاں چھوڑ کر

پیوے میرا ہی لہو مانی جو لب اس شوخ کے
کھینچے تو شنگرف سے خون شہیداں چھوڑ کر

میں ہوں وہ گمنام جب دفتر میں نام آیا مرا
رہ گیا بس منشی قدرت جگہ واں چھوڑ کر

سایۂ سرو چمن تجھ بن ڈراتا ہے مجھے
سانپ سا پانی میں اے سرو خراماں چھوڑ کر

ہو گیا طفلی ہی سے دل میں ترازو تیر عشق
بھاگے ہیں مکتب سے ہم اوراق میزاں چھوڑ کر

اہل جوہر کو وطن میں رہنے دیتا گر فلک
لعل کیوں اس رنگ سے آتا بدخشاں چھوڑ کر

شوق ہے اس کو بھی طرز نالۂ عشاق سے
دم بدم چھیڑے ہے منہ سے دود قلیاں چھوڑ کر

دل تو لگتے ہی لگے گا حوریان عدن سے
باغ ہستی سے چلا ہوں ہائے پریاں چھوڑ کر

گھر سے بھی واقف نہیں اس کے کہ جس کے واسطے
بیٹھے ہیں گھر بار ہم سب خانہ ویراں چھوڑ کر

وصل میں گر ہووے مجھ کو رویت ماہ رجب
روئے جاناں ہی کو دیکھوں میں تو قرآں چھوڑ کر

ان دنوں گرچہ دکن میں ہے بڑی قدر سخن
کون جائے ذوقؔ پر دلی کی گلیاں چھوڑ کر

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse