جب نہ جیتے جی مرے کام آئے گی

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
جب نہ جیتے جی مرے کام آئے گی
by دیا شنکر نسیم

جب نہ جیتے جی مرے کام آئے گی
کیا یہ دنیا عاقبت بخشائے گی

جب ملے دو دل مخل پھر کون ہے
بیٹھ جاؤ خود حیا اٹھ جائے گی

گر یہی ہے اس گلستاں کی ہوا
شاخ گل اک روز جھونکا کھائے گی

داغ سودا ایک دن دے گا بہار
فصل اس گل کی شگوفہ لائے گی

کچھ تو ہوگا ہجر میں انجام کار
بے قراری کچھ نہ کچھ ٹھہرائے گی

صندلی رنگوں سے مانا دل ملا
درد سر کی کس کے ماتھے جائے گی

خاکساروں سے جو رکھے گا غبار
او فلک بدلی تری ہو جائے گی

جب کرے گا گرمیاں وہ شعلہ رو
شمع محفل دیکھ کر جل جائے گی

جاں نکل جائے گی تن سے اے نسیمؔ
گل کو بوئے گل ہوا بتلائے گی

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse