جب نظر اس کی آن پڑتی ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
جب نظر اس کی آن پڑتی ہے
by مرزا محمد رفیع سودا

جب نظر اس کی آن پڑتی ہے
زندگی تب دھیان پڑتی ہے

جھیل لیتے ہیں عاشق اے فرہاد
جس کے سر جیسی آن پڑتی ہے

ہے جفا سے غرض اسے اتنی
کہ وفا امتحان پڑتی ہے

نظر ان مہ وشاں کی ہے ظالم
کیا غضب آن بان پڑتی ہے

قد زاہد نظر میں چلے بعد
اتری سی کچھ کمان پڑتی ہے

بات اس دل کے درد کی یارو
گفتگو میں ندان پڑتی ہے

ایک کے منہ سے جس گھڑی نکلی
پھر تو سو کی زبان پڑتی ہے

لیکن اتنا کوئی کہے مجھ سے
کبھو اس کے بھی کان پڑتی ہے

بے ثباتی زمانے کی ناچار
کرنی مجھ کو بیان پڑتی ہے

گرم جوشیٔ دوستاں بہ نظر
آتش کاروان پڑتی ہے

دل سے پوچھا یہ میں کہ عشق کی راہ
کس طرف مہربان پڑتی ہے

کہا ان نے کہ نے بہ ہندستاں
نے سوئے اصفہان پڑتی ہے

یہ دوراہا جو کفر و دیں کا ہے
دونوں کے درمیان پڑتی ہے

منزلت شعر کی ترے سوداؔ
یوں بہ وہم و گمان پڑتی ہے

نہیں عیسیٰؔ تو پر سخن سے ترے
تن بے جاں میں جان پڑتی ہے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse