جب ناز عشق حسن کے قابل نہیں رہا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
جب ناز عشق حسن کے قابل نہیں رہا
by بیخود موہانی

جب ناز عشق حسن کے قابل نہیں رہا
پھر وہ کچھ اور ہی ہے مرا دل نہیں رہا

کہتی ہے دل کے حال پہ گھبرا کے بے خودی
یہ آپ میں بھی آنے کے قابل نہیں رہا

اک جلوہ پیش پیش ہے اور بڑھ رہے ہیں ہم
اب کچھ خیال دوریٔ منزل نہیں رہا

دنیا یہی ہے شک ہے تو اس کو مٹا کے دیکھ
پھر کچھ نہیں جہان میں جب دل نہیں رہا

پوری جزا ملے گی اسی دل کو حشر میں
جس کو خیال شکوۂ قاتل نہیں رہا

تمکیں غضب ہے ساقیٔ دور الست میں
شاید خیال گرمیٔ محفل نہیں رہا

دنیا سے پوچھ دیکھ کوئی ذرہ دہر کا
تزئین کائنات سے غافل نہیں رہا

زینت پہ کائنات کی جانے لگی نظر
اب میں ترے خیال کے قابل نہیں رہا

بس کر اجڑ چکی ہیں امنگوں کی بستیاں
دنیا میں شاد آج کوئی دل نہیں رہا

افسردگی کی جان ہے آزردگی کی روح
جو ولولوں کی جان تھا وہ دل نہیں رہا

ہے کل کی بات تھا یہی دنیائے حسن و عشق
ویرانۂ ملال ہے اب دل نہیں رہا

بیخودؔ کسی کے ناز دوئی سوز کی قسم
کیسی نظر خیال بھی حائل نہیں رہا

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse