جب عیاں صبح کو وہ نور مجسم ہو جائے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
جب عیاں صبح کو وہ نور مجسم ہو جائے
by مرزارضا برق

جب عیاں صبح کو وہ نور مجسم ہو جائے
گوہر شبنم گل نیر اعظم ہو جائے

مرثیہ ہو مجھے گانا جو سنوں فرقت میں
بے ترے بزم غنا مجلس ماتم ہو جائے

دیکھ کر طول شب ہجر دعا کرتا ہوں
وصل کے روز سے بھی عمر مری کم ہو جائے

دیکھ کر پھولوں کو انگاروں پہ لوٹوں اے گل
بے ترے گلشن فردوس جہنم ہو جائے

کم نہیں ملک سلیماں سے وصال ساقی
گردش جام مجھے حلقۂ خاتم ہو جائے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse