جب سے کہ بتوں سے آشنا ہوں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
جب سے کہ بتوں سے آشنا ہوں
by بخش ناسخ

جب سے کہ بتوں سے آشنا ہوں
بیگانہ خدائی سے ہوا ہوں

کیوں کر کہوں عارف خدا ہوں
آگاہ نہیں کہ آپ کیا ہوں

جب ہجر میں باغ کو گیا ہوں
میں آتش گل میں جل بجھا ہوں

فرقت میں جو سر پٹک رہا ہوں
مشغول نماز کبریا ہوں

منہ زرد ہے تنکے چن رہا ہوں
اے وحشت کیا میں کہربا ہوں

بیگانہ ہوں کیوں کر آشنا سے
بیگانوں سے میں بھی آشنا ہوں

منہ ان کا نہیں ہے شکر ورنہ
ہر بت کہتا کہ میں خدا ہوں

امید وصال اب کہاں ہے
اس گل سے برنگ بو جدا ہوں

کیوں دوست نہ خوش ہوں جائے ماتم
سیماب کی طرح مر گیا ہوں

خلقت خوش ہو جو میں ہوں پامال
گلزار جہاں میں کیا حنا ہوں

ہنس دوں گا دم میں مثل گل آپ
غنچے کی طرح سے گو خفا ہوں

آتش قدمی سے جلتے ہیں خار
اے قیس میں وہ برہنہ پا ہوں

کرتے ہیں گریز مجھ سے منحوس
بے شبہ میں سایۂ ہما ہوں

ہوں قافلۂ عدم سے آگے
اس راہ میں نالۂ درا ہوں

ناسخؔ کی یہ التجا ہے یا رب
مر جاؤں تو خاک کربلا ہوں

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse