جب سے سنا دہن ترے اے ماہرو نہیں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
جب سے سنا دہن ترے اے ماہرو نہیں
by رشید لکھنوی
317344جب سے سنا دہن ترے اے ماہرو نہیںرشید لکھنوی

جب سے سنا دہن ترے اے ماہرو نہیں
سب چپ ہیں اب کسی کی کوئی گفتگو نہیں

نکلے جو قلب سے وہ مری آرزو نہیں
تو مل ہی جائے گر تو میں سمجھوں کہ تو نہیں

آنکھیں لڑا رہے ہو سر بزم غیر سے
اور مجھ سے یہ بیان کہ ہم جنگ جو نہیں

پیدا ہوا ہے ایک کی ضد ایک خلق میں
عزت ہے غیر کی تو مری آبرو نہیں

ٹانکے نہ کھائیں زخمیٔ تیغ نگاہ ناز
کہنے کو ہو کہ جامۂ تن میں رفو نہیں

معشوق کون سا ہے نہ ہو دل میں جس کی یاد
اس مختصر سے باغ میں کس گل کی بو نہیں

یہ حال تیری وعدہ خلافی سے ہو گیا
اب تو قسم بھی کھانے کو مجھ میں لہو نہیں

پیری ہے عاشقی کا مزہ جا چکا رشیدؔ
وہ ہم نہیں وہ دل نہیں وہ آرزو نہیں

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse