جب سے بلبل تو نے دو تنکے لیے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
جب سے بلبل تو نے دو تنکے لیے
by امیر مینائی

جب سے بلبل تو نے دو تنکے لیے
ٹوٹتی ہیں بجلیاں ان کے لیے

ہے جوانی خود جوانی کا سنگار
سادگی گہنہ ہے اس سن کے لیے

کون ویرانے میں دیکھے گا بہار
پھول جنگل میں کھلے کن کے لیے

ساری دنیا کے ہیں وہ میرے سوا
میں نے دنیا چھوڑ دی جن کے لیے

باغباں کلیاں ہوں ہلکے رنگ کی
بھیجنی ہے ایک کمسن کے لیے

سب حسیں ہیں زاہدوں کو ناپسند
اب کوئی حور آئے گی ان کے لیے

وصل کا دن اور اتنا مختصر
دن گنے جاتے تھے اس دن کے لیے

صبح کا سونا جو ہاتھ آتا امیرؔ
بھیجتے تحفہ موذن کے لیے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse