جب دست بستہ کی نہیں عقدہ کشا نماز

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
جب دست بستہ کی نہیں عقدہ کشا نماز
by امداد علی بحر

جب دست بستہ کی نہیں عقدہ کشا نماز
کاٹے گی میری پاؤں کی زنجیر کیا نماز

بندوں کا تو یہ حال ہے لیتی نہیں سلام
کیوں کر کہوں قبول کرے گا خدا نماز

بوئے ریا ہر ایک گل بوریا میں ہے
دنیا کی گھر کا فرش ہے زاہد کی جانماز

روزہ ہماری فاقہ کشی کا نمونہ ہے
اپنی فروتنی کا ہی اک پرتوا نماز

فریاد کر رہا ہوں دو وقتی اذاں نہیں
تکلیف مجھ کو دیتی ہیں صبح و مسا نماز

مینائے مے امام ہو ماموم رند ہوں
حسرت ہے پانچ وقت کی ہو یوں ادا نماز

سارے نقوش سنگئ گلہائے باغ خلد
جس بوریے پہ میں نے پڑھی بے ریا نماز

مستی میں لغزش اپنی رکوع و سجود ہے
نکلے جو میکدے سے تو ہوگی قضا نماز

جاتے ہیں گرتے پڑتے ہوئے راہ شوق میں
کیا جانیں ہم طریق ہے کیا اور کیا نماز

لا تقربو الصلوٰۃ اسی امر پر ہے نہیں
پی کر مے‌ٔ غرور نہ پڑھ واعظا نماز

اللہ دے جو نیت خالص حضور قلب
پھر عرش سجدہ گاہ ہے کرسی ہے جانماز

ہر دم جہاد نفس میں تکبیر ہے بلند
سر پر ہے تیغ جبر مگر ہے بپا نماز

دامان تر کی لو خبر اے زاہدان خشک
اس جامۂ نجس سے نہیں ہے روا نماز

ہے اضطراب فاقے میں اٹھ بیٹھ بہر قوت
زاہد کجا و روزہ کجا و کجا نماز

تیر و کماں ہیں اس کے قیام و رکوع بحرؔ
اک دن اڑائے گی ہدف مدعا نماز

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse