جب خزاں آئی چمن میں سب دغا دینے لگے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
جب خزاں آئی چمن میں سب دغا دینے لگے
by بوم میرٹھی

جب خزاں آئی چمن میں سب دغا دینے لگے
تنکے اڑا اڑ کر نشیمن کا پتہ دینے لگے

جب مری گستاخیوں کی وہ سزا دینے لگے
وصل کی شب لات گھونسہ بھی مزا دینے لگے

مانجھ کر وہ دانتوں کو جب مسکرا دینے لگے
چھوٹی موٹی سینکڑوں بجلی گرا دینے لگے

قتل کرنے کے بجائے یہ سزا دینے لگے
کھود کر گڈھا مجھے زندہ دبا دینے لگے

بے تحاشہ قبر پر کسلے بجا دینے لگے
میری مٹی کو ٹھکانے سے لگا دینے لگے

ان کے اک تھپڑ سے جب میں دم چرا کر پڑ گیا
ایسے گھبرائے کہ دامن سے ہوا دینے لگے

آپ تو مانگا کریں تھے میرے مرنے کی دعا
اب لگا مرنے تو جینے کی دعا دینے لگے

کیسا عاشق آپ تو مجھ کو سمجھتے ہیں قلی
ہر جگہ ہاتھوں میں میرے بسترہ دینے لگے

ہو گیا مجبور میں بھی اور دل ناکام بھی
وصل کی شب جب خدا کا واسطہ دینے لگے

کم نہیں ہے تارپیڈو سے ترے تیر نظر
چھید کر دل آگ سینے میں لگا دینے لگے

محروموں سے آپ کے جوبن کا عقدہ کھل گیا
آپ کی اٹھتی جوانی کا پتہ دینے لگے

بومؔ ہونا چاہئے بزم سخن میں وہ کلام
دوست کیا دشمن صدائے مرحبا دینے لگے

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse