جب جوانی نہیں تو پھر کیا ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
جب جوانی نہیں تو پھر کیا ہے  (1928) 
by سید امیر حسن بدر

جب جوانی نہیں تو پھر کیا ہے
زندگانی نہیں تو پھر کیا ہے

نظم وصف دہن جو کرتا ہوں
غیب دانی نہیں تو پھر کیا ہے

حور کے ذکر پر بگڑتے ہو
بد گمانی نہیں تو پھر کیا ہے

خوب دیکھی شبیہ یوسف کی
نقش ثانی نہیں تو پھر کیا ہے

خوش نوایان باغ و کنج قفس
دانہ پانی نہیں تو پھر کیا ہے

ناز اٹھتے نہیں حسینوں کے
ناتوانی نہیں تو پھر کیا ہے

دی جگہ مجھ کو اپنے پہلو میں
مہربانی نہیں تو پھر کیا ہے

ارنی کا جواب اے موسیٰ
لن ترانی نہیں تو پھر کیا ہے

دل مضطر میں داغ چھلے کا
یہ نشانی نہیں تو پھر کیا ہے

ہو پریشان مجھ سے خلوت میں
بد گمانی نہیں تو پھر کیا ہے

آتش تر کو دیکھ اے واعظ
آگ پانی نہیں تو پھر کیا ہے

ترے ساقی سفید سینہ میں
ارغوانی نہیں تو پھر کیا ہے

تو سنے طور پر کلیم کی بات
خوش بیانی نہیں تو پھر کیا ہے

زندگی جس کو لوگ کہتے ہیں
بدرؔ فانی نہیں تو پھر کیا ہے

This work is in the public domain in the United States because it was first published outside the United States (and not published in the U.S. within 30 days), and it was first published before 1989 without complying with U.S. copyright formalities (renewal and/or copyright notice) and it was in the public domain in its home country on the URAA date (January 1, 1996 for most countries).

Public domainPublic domainfalsefalse