جب تک کہ طبیعت سے طبیعت نہیں ملتی

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
جب تک کہ طبیعت سے طبیعت نہیں ملتی
by حفیظ جونپوری

جب تک کہ طبیعت سے طبیعت نہیں ملتی
ہوں پیار کی باتیں بھی تو لذت نہیں ملتی

آرام گھڑی بھر کسی کروٹ نہیں ملتا
راحت کسی پہلو شب فرقت نہیں ملتی

جب تک وہ کھنچے بیٹھے ہیں دل ان سے رکا ہے
جب تک نہیں ملتے وہ طبیعت نہیں ملتی

جیتے ہیں تو ہوتی ہے ان آنکھوں سے ندامت
مرتے ہیں تو اس لب سے اجازت نہیں ملتی

اس زہد پر نازاں نہ ہو زاہد سے یہ کہہ دو
تسبیح پھرانے ہی سے جنت نہیں ملتی

کیا ڈھونڈھتے ہیں گور غریباں میں وہ آ کر
کس کشتۂ رفتار کی تربت نہیں ملتی

کس طرح مرے گھر وہ حفیظؔ آئیں کہ ان کو
غیروں کی مدارات سے فرصت نہیں ملتی

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse