جب تک غم جہاں کے حوالے ہوئے نہیں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
جب تک غم جہاں کے حوالے ہوئے نہیں
by شکیب جلالی

جب تک غم جہاں کے حوالے ہوئے نہیں
ہم زندگی کے جاننے والے ہوئے نہیں

کہتا ہے آفتاب ذرا دیکھنا کہ ہم
ڈوبے تھے گہری رات میں کالے ہوئے نہیں

چلتے ہو سینہ تان کے دھرتی پہ کس لیے
تم آسماں تو سر پہ سنبھالے ہوئے نہیں

انمول وہ گہر ہیں جہاں کی نگاہ میں
دریا کی جو تہوں سے نکالے ہوئے نہیں

طے کی ہے ہم نے صورت مہتاب راہ شب
طول سفر سے پاؤں میں چھالے ہوئے نہیں

ڈس لیں تو ان کے زہر کا آسان ہے اتار
یہ سانپ آستین کے پالے ہوئے نہیں

تیشے کا کام ریشۂ گل سے لیا شکیبؔ
ہم سے پہاڑ کاٹنے والے ہوئے نہیں

This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.

Public domainPublic domainfalsefalse