جب تو میں ہوں آہ میں ایسا اثر پیدا کروں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
جب تو میں ہوں آہ میں ایسا اثر پیدا کروں
by نظام رامپوری

جب تو میں ہوں آہ میں ایسا اثر پیدا کروں
اے ستم گر تیرے دل میں اپنا گھر پیدا کروں

یاں تو یہ عادت ہے کس کس کا کرے گا تو علاج
روز بیماری سے میں دو چار اگر پیدا کروں

یہ تغافل وصل کی شب پوچھتے ہیں میرا حال
اب دعائیں مانگ کر درد جگر پیدا کروں

آنکھ اٹھا کر جس طرف دیکھوں وہی آئے نظر
آنکھ وہ پیدا کروں اور وہ نظر پیدا کروں

فکر سے ایذاؤں کی الٹی سنا جائے ہیں غیر
ایسا دل پیدا کروں اور وہ جگر پیدا کروں

جو تمہیں منظور ہے وہ کہہ نہ دو کیوں چپ رہو
پھر خطا میری کوئی حجت اگر پیدا کروں

تیری فرقت میں گوارا کر سکوں گا کس طرح
کس کا دل لاؤں کہاں سے یہ جگر پیدا کروں

ہائے دل رنجش کا صدمہ ایک دم اٹھتا نہیں
خود منائیں وہ میں اتنی بات گر پیدا کروں

کچھ رکا دیکھا جو مجھ کو تو سنا کر یہ کہا
یہ تو اچھی ٹھہری اب لوگوں کا ڈر پیدا کروں

میں ہی ہوں مجھ سا اگر ڈھونڈو جہاں میں مبتلا
تو ہی ہو تجھ سا حسیں دنیا میں گر پیدا کروں

اچھا اچھا در کو کر لو بند مجھ کو دیکھ کر
سر کو ٹکراؤں ابھی دیوار و در پیدا کروں

سب کچھ آتا ہے مگر یاں عقل حیراں ہے مری
تیرے دل میں رہ کیوں کر فتنہ گر پیدا کروں

اب تری جھوٹی لگاوٹ میں نہ آؤں گا کبھی
مفت ایذا پاؤں ناحق درد سر پیدا کروں

کہتے ہیں کیا تجھ پہ گزری تھی مرے جانے کے بعد
کیا بتاؤں کیسے وہ وقت سحر پیدا کروں

کیوں نظامؔ اس وقت تو تم مان جاؤ گے مجھے
دوستی اس دشمن جاں سے اگر پیدا کروں

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse