جب اس کے ہی ملنے سے ناکام آیا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
جب اس کے ہی ملنے سے ناکام آیا
by نظیر اکبر آبادی

جب اس کے ہی ملنے سے ناکام آیا
تو یارب یہ دل میرا کس کام آیا

کبھی اس تغافل منش کی طرف سے
نہ قاصد نہ نامہ نہ پیغام آیا

صد افسوس دم اپنا نکلا ہے کس دم
کہ جب گھر سے گھر تک وہ گلفام آیا

مجھے صبح کو قتل کر وہ مسیحا
جو گھر اپنے فرخندہ فرجام آیا

کسی نے مری بات بھی واں نہ پوچھی
اگرچہ ہر اک خاص اور عام آیا

غرض پھر اسی کو جو یاد آئی میری
تو گھبرا کے جس دم ہوئی شام آیا

جلایا اٹھایا گلے سے لگایا
عزیزو پھر آخر وہی کام آیا

گئی بے وفائی نظیرؔ اب جہاں سے
وفاداریوں کا بھی ہنگام آیا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse