جب اس کی زلف کے حلقے میں ہم اسیر ہوئے
Appearance
جب اس کی زلف کے حلقے میں ہم اسیر ہوئے
شکن کے عادی ہوئے خم کے خو پذیر ہوئے
خدنگ وار جو غمزے تھے اس کے چھٹپن میں
پر اب نظر میں جو آئے تو رشک تیر ہوئے
جھڑک دیا ہمیں کوچے میں اس نے ہر دم دیکھ
ہم اپنے دل میں کچھ اس دم خجل کثیر ہوئے
جو گاہ گاہ ادھر جاتے ہم تو رہتی قدر
گھڑی گھڑی جو گئے اس سبب حقیر ہوئے
نگہ کے لڑتے ہی ہنس کر کہا نظیرؔ اس نے
یہ باتیں چھوڑ دو کچھ سمجھو اب تو پیر ہوئے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |