جب اس کی زلف کے حلقے میں ہم اسیر ہوئے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
جب اس کی زلف کے حلقے میں ہم اسیر ہوئے
by نظیر اکبر آبادی

جب اس کی زلف کے حلقے میں ہم اسیر ہوئے
شکن کے عادی ہوئے خم کے خو پذیر ہوئے

خدنگ وار جو غمزے تھے اس کے چھٹپن میں
پر اب نظر میں جو آئے تو رشک تیر ہوئے

جھڑک دیا ہمیں کوچے میں اس نے ہر دم دیکھ
ہم اپنے دل میں کچھ اس دم خجل کثیر ہوئے

جو گاہ گاہ ادھر جاتے ہم تو رہتی قدر
گھڑی گھڑی جو گئے اس سبب حقیر ہوئے

نگہ کے لڑتے ہی ہنس کر کہا نظیرؔ اس نے
یہ باتیں چھوڑ دو کچھ سمجھو اب تو پیر ہوئے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse