جب اس کا ادھر ہم گزر دیکھتے ہیں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
جب اس کا ادھر ہم گزر دیکھتے ہیں
by نظیر اکبر آبادی

جب اس کا ادھر ہم گزر دیکھتے ہیں
تو کر دل میں کیا کیا حذر دیکھتے ہیں

ادھر تیر چلتے ہیں ناز و ادا کے
ادھر اپنا سینہ سپر دیکھتے ہیں

ستم ہے کن انکھیوں سے گر تاک لیجے
غضب ہے اگر آنکھ بھر دیکھتے ہیں

نہ دیکھیں تو یہ حال ہوتا ہے دل کا
کہ سو سو تڑپ کے اثر دیکھتے ہیں

جو دیکھیں تو یہ جی میں گزرے ہے خطرہ
ابھی سر اڑے گا اگر دیکھتے ہیں

مگر اس طرح دیکھتے ہیں کہ اس پر
یہ ثابت نہ ہو جو ادھر دیکھتے ہیں

چھپا کر دغا کر نظیرؔ اس صنم کو
غرض ہر طرح اک نظر دیکھتے ہیں

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse