جب آنکھ اس صنم سے لڑی تب خبر پڑی

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
جب آنکھ اس صنم سے لڑی تب خبر پڑی
by نظیر اکبر آبادی

جب آنکھ اس صنم سے لڑی تب خبر پڑی
غفلت کی گرد دل سے جھڑی تب خیر پڑی

پہلے کے جام میں نہ ہوا کچھ نشہ تو آہ
دل بر نے دی تب اس سے کڑی تب خبر پڑی

لائے تھے ہم تو عمر پٹا یاں لکھا ولے
جب سیاہی پر سفیدی چڑی تب خبر پڑی

داڑھیں لگیں اکھڑنے کو دنداں ہوے شہید
مجلس میں چل بچل یہ پڑی تب خبر پڑی

بن دانت بھی ہنسے پہ جب آنکھیں چلیں تو آہ!
جب لاگی آنسوؤں کی جھڑی تب خبر پڑی

شہتیر سا وہ قد تھا سو خم ہو کے جھک گیا
گرنے لگی کڑی پہ کڑی تب خبر پڑی

نیچا دکھایا شیر نے تو بھی یہ سمجھے جھوٹ
جب چاب لی گلے کی نڑی تب خبر پڑی

جب آئے اس گڑھے میں نظیرؔ اور ہزار من
اوپر سے آ کے خاک پڑی تب خبر پڑی

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse