جبیں پر خاک ہے یہ کس کے در کی

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
جبیں پر خاک ہے یہ کس کے در کی
by مبارک عظیم آبادی

جبیں پر خاک ہے یہ کس کے در کی
بلائیں لے رہا ہوں اپنے سر کی

ابھر آئی ہیں پھر چوٹیں جگر کی
سلامت برچھیاں ترچھی نظر کی

قیامت کی حقیقت جانتا ہوں
یہ اک ٹھوکر ہے میرے فتنہ گر کی

کیا مجبور آئین وفا نے
نہ کرنی تھی وفا تم سے مگر کی

نہ مانو گے نہ مانو گے ہماری
ادھر ہو جائے گی دنیا ادھر کی

ہوئی ان بن کسی سے مجھ پہ برسے
بلائیں میرے سر دشمن کے سر کی

نہ تیرے حسن بے پروا کی غایت
نہ کوئی حد مرے ذوق نظر کی

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse