جبین پر کیوں شکن ہے اے جان منہ ہے غصہ سے لال کیسا
جبین پر کیوں شکن ہے اے جان منہ ہے غصہ سے لال کیسا
ہزار باتیں ہوں ایک ہیں پھر بھلا یہ باہم ملال کیسا
نہیں ہے اب تاب درد فرقت کہاں کی عزت کہاں کی غیرت
ہیں مبتلا اپنے حال میں ہم کسی کا اس دم خیال کیسا
بتاؤ مجھ کو یہ کیا ہوا ہے یہ کون سا درد لا دوا ہے
یہ کیوں مرا دم الجھ رہا ہے ہے خود بخود جی نڈھال کیسا
تمام عالم ہوا جو شیدا تو کچھ تعجب نہیں ہے اس کا
بت ستم گار تجھ کو بخشا خدا نے حسن و جمال کیسا
گنہ سے سیری ہوئی نہیں ہے یہ کہتے ہیں سب اجل قریں ہے
قلق میں ہر دم دل حزیں ہے کہ ہوگا اپنا مآل کیسا
یہ اس ستم گر سے کوئی کہہ دے مریض فرقت کی اب خبر لے
ہیں کٹ رہی زندگی کی گھڑیاں کہاں کا دن ماہ و سال کیسا
غضب سے ہے واں جو چیں جبیں پر ہجوم غم ہے دل حزیں پر
لہو کے دھبے ہیں آستیں پر ہے دامن اشکوں سے لال کیسا
ہوس ہے ہر ایک جی کی جی میں ہوئے جو غش وصل کی خوشی میں
تمام شب گزری بے خودی میں جواب کیسا سوال کیسا
جہان چھانا پڑا ہے کب کا فلک پہ وحشت کا اب ہے شہرا
کہاں کا مغرب کہاں کا مشرق جنوب کیسا شمال کیسا
وہ مہر ہوں میں ہوا جو طالع تو اک زمانہ نے خاک اڑائی
چمکنے دیتے نہیں ہیں بد میں عروج کیسا زوال کیسا
حبیبؔ کر کے بتوں کی الفت ابھی سے یہ ہجر کی شکایت
رہے گا اب حشر تک یہ جھگڑا یہاں بھلا انفصال کیسا
This work was published before January 1, 1929 and is anonymous or pseudonymous due to unknown authorship. It is in the public domain in the United States as well as countries and areas where the copyright terms of anonymous or pseudonymous works are 100 years or less since publication. |