جبین شوق کو کچھ اور بھی اذن سعادت دے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
جبین شوق کو کچھ اور بھی اذن سعادت دے
by عبدالعلیم آسی

جبین شوق کو کچھ اور بھی اذن سعادت دے
کہ ذوق زندگی محدود سنگ آستاں تک ہے

نوید رستگاری پر عبث دل شاد ہوتا ہے
ابھی صد دام اے بلبل قفس سے آشیاں تک ہے

یہ احساس تعلق مجھ کو مٹنے بھی نہیں دیتا
کہ تیری داستاں کا ربط میری داستاں تک ہے

ترانہ چھیڑ وہ مطرب کہ روح عشق چونک اٹھے
خروش نالۂ غم کیا جو سوز جسم و جاں تک ہے

سراپا آرزو بن کر کمال مدعا ہو جا
وہ ننگ عشق ہے جو آرزو آہ و فغاں تک ہے

زمانہ چاہیے تکمیل ذوق لذت غم کو
ابھی دنیائے دل محدود ذکر این و آں تک ہے

بیابان محبت کی نوازش پوچھنا کیا ہے
امید و بیم کی حالت فقط سود و زیاں تک ہے

کہاں سے لائے گی دنیا ہماری ہمتیں آسیؔ
محبت میں قدم اپنا فقط کون و مکاں تک ہے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse