جبکہ غصے کے بیچ آتے ہو

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
جبکہ غصے کے بیچ آتے ہو
by مرزا اظفری

جبکہ غصے کے بیچ آتے ہو
لاکھ لاکھ ایک کی سناتے ہو

کیسے ہر کھائے سے بنے پیارے
بات کرتے ہی کاٹ کھاتے ہو

اڑتی چڑیا کو ہم پرکھتے ہیں
کسے باتوں میں تم اڑاتے ہو

کہو مجھ سے بھی چل سکوگے کیا
بیٹھو جی باتیں کیا بناتے ہو

جس نہ تس پر نہ دیکھ دہ پڑنا
بھلے متوالے مدھ کے ماتے ہو

جب میں دیکھوں ہوں آنکھ بھر کے تمہیں
بدل آنکھیں مجھے دھراتے ہو

کیا تمہاری گدھی چرائی میں
گالیاں دے جو منہ چراتے ہو

جب نہ تب اٹھ کے اظفریؔ کا گلا
داب دھمکاتے اور ڈراتے ہو

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse