جا لڑی یار سے ہماری آنکھ

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
جا لڑی یار سے ہماری آنکھ
by آغا اکبرآبادی

جا لڑی یار سے ہماری آنکھ
دیکھو کر بیٹھی فوجداری آنکھ

شوخیاں بھول جائے آہوئے چیں
دیکھ پائے اگر تمہاری آنکھ

لاکھ انکار مے کشی سے کرو
کہیں چھپتی بھی ہے خماری آنکھ

ہووے گا رنج یا خوشی ہوگی
کیوں پھڑکنے لگی ہماری آنکھ

جانب در نگاہ حسرت ہے
کس کی کرتی ہے انتظاری آنکھ

کر کے اقرار ہو گیا منکر
سامنے آ کے کس نے ماری آنکھ

مرغ دل پر نگاہ ہے ان کی
ایسی دیکھی نہیں شکاری آنکھ

ہے ستم نوک جھونک چتون میں
لڑ رہی ہے چھری کٹاری آنکھ

دل جگر دونوں ہو گئے مجروح
بن گئی ہے چھری کٹاری آنکھ

کوئی دم میں ابھارتے ہیں اسے
اس نے دیکھا کہ ہم نے ماری آنکھ

آغاؔ صاحب تمہارے دلبر کی
کیا رسیلی ہے کیا ہے پیاری آنکھ

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse