جا بیٹھتے ہو غیروں میں غیرت نہیں آتی

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
جا بیٹھتے ہو غیروں میں غیرت نہیں آتی
by واجد علی شاہ

جا بیٹھتے ہو غیروں میں غیرت نہیں آتی
اس وقت مری جان مروت نہیں آتی

نزدیک بھی جا کر نہ ملا پردہ نشیں سے
جا دور ہو اے دل تجھے چاہت نہیں آتی

اک ہم ہیں کہ ہیں نام مبارک پہ تصدق
تم کو تو کبھی دیکھ کے الفت نہیں آتی

یا رنج ہے یا ہجر ہے یا حزن ہے یا غم
کچھ شکل بنا کر تو مصیبت نہیں آتی

کیا راہ روی یار کی سیکھے ہے تو اس سال
اس طرح گئی جسم سے طاقت نہیں آتی

ہر شے کے لئے ظرف ہے درکار جہاں میں
کم ظرف کے نزدیک تو ثروت نہیں آتی

کلکتے نے نابود کیا خواب خوشی کو
پل بھر مجھے اس شہر میں راحت نہیں آتی

رہتا ہوں خیال رخ زیبا میں شب و روز
اے جان تصور میں وہ صورت نہیں آتی

کھلتے ہیں گل شعر ہر اک روز مہ و سال
اخترؔ مرے گلزار پہ آفت نہیں آتی

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse