جاں بھی بجاں ہے ہجر میں اور دل فگار بھی

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
جاں بھی بجاں ہے ہجر میں اور دل فگار بھی
by نظیر اکبر آبادی

جاں بھی بجاں ہے ہجر میں اور دل فگار بھی
تر ہے مژہ بھی اشک سے جیب بھی اور کنار بھی

طرفہ فسوں سرشت ہے چشم کرشمہ سنج یار
لیتی ہے اک نگاہ میں صبر بھی اور قرار بھی

کوچے میں اس کے بیٹھنا حسن کو اس کے دیکھنا
ہم تو اسی کو سمجھے ہیں باغ بھی اور بہار بھی

دیکھیے کیا ہو بے طرح دل کی لگے ہیں گھات میں
غمزۂ پر فریب بھی عشوۂ سحر کار بھی

زلف کو بھی ہے دم بہ دم عزم کمند افگنی
دام لیے ہے مستعد طرۂ تابدار بھی

بیٹھے بتوں کی بزم میں جن کی ہے قدر جب وہ لوگ
اپنے فریب و فن سے واں تھا یہ خراب و خوار بھی

گننے لگے وہ اپنے جب چاہنے والوں کو نظیرؔ
اٹھ کے یکایک اس گھڑی ہم نے کہا "ہیں یار بھی"

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse