جاں بخش لب کے عشق میں ایذا اٹھائیے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
جاں بخش لب کے عشق میں ایذا اٹھائیے
by حیدر علی آتش

جاں بخش لب کے عشق میں ایذا اٹھائیے
بیمار ہو کے ناز مسیحا اٹھائیے

قدسی نگاہ لطف کے امیدوار ہیں
آنکھیں تو سوئے عالم بالا اٹھائیے

اب کے بہار میں جو ہمیں لے چلے جنوں
چن چن کے داغ لالۂ صحرا اٹھائیے

خامہ سے کام لیجئے ہنگام فکر شعر
میدان کارزار میں گھوڑا اٹھائیے

دکھلائے حسن یار کا جلوہ ہمیں جو عشق
کس کس طرح سے لطف تماشا اٹھائیے

تجھ سا حسیں ہو یار تو کیوں کر نہ اس کے پھر
ناز بجا و غمزۂ بے جا اٹھائیے

مفلس ہوں لاکھ پر یہی دل کو بندھی ہے دھن
یوسف کو قرض لے کے تقاضا اٹھائیے

فصل بہار آئی پیو صوفیو شراب
بس ہو چکی نماز مصلیٰ اٹھائیے

جام شراب ناب ہے ساقی لیے کھڑا
گردن تو مثل گردن مینا اٹھائیے

آواز کو سنا کے کئے کان مستفیض
رحم آنکھوں پر بھی کیجئے پردا اٹھائیے

جوش جنوں میں دیکھیے پیچھے نہ مڑ کے پھر
منہ جس طرف کو صورت دریا اٹھائیے

شمشیر زن ہو یار بہادر جوان ہو
آتشؔ جہاد عشق پہ بیڑا اٹھائیے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse