جاگا وہاں نصیب عدو کا تمام رات

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
جاگا وہاں نصیب عدو کا تمام رات
by شاہ اکبر داناپوری

جاگا وہاں نصیب عدو کا تمام رات
میں بے قراریوں سے نہ سویا تمام رات

میری گلی سے اس کو لگا لے گیا رقیب
میں دیکھتا ہی رہ گیا رستہ تمام رات

تھا بزم غیر میں جو وہاں شغل دور جام
درد جگر کا تھا یہاں دورا تمام رات

مدت ہوئی کہ خواب سے واقف نہیں ہے آنکھ
رہتا ہے زلف یار کا سودا تمام رات

پایا نہ تیرگیٔ شب ہجر میں پتا
مجھ کو اجل نے خوب ہی ڈھونڈا تمام رات

دم بھر بھی میرے دل نے نہ سونے دیا اسے
رویا کیا یہ ہجر کا دھڑکا تمام رات

سوہان روح تھا شب وعدہ میں انتظار
لیکن وہ حیلہ جو نہیں آیا تمام رات

یہ حسن یار نے کیا حیراں شب وصال
تکتا ہی رہ گیا رخ زیبا تمام رات

میرا خیال ہجر کی شب وصل بن گیا
پیش نگاہ یار کو رکھا تمام رات

اکبرؔ شب فراق میں جاگے مرے نصیب
میں نے اسی کو خواب میں دیکھا تمام رات

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse