جان کر کہتا ہے ہم سے اپنے جانے کی خبر
Appearance
جان کر کہتا ہے ہم سے اپنے جانے کی خبر
جی ڈوبا دیتی ہے میرا یہ بہانے کی خبر
اس چمن میں کون ہے دل سوز اپنا تجھ سوا
رکھیو ٹک اے برق میرے آشیانے کی خبر
پوچھتا نیں اپنے کوچے میں تو میرا حال ہائے
لے تھی لیلیٰ دشت میں اپنے دوانے کی خبر
ہیں قفس میں جب سے ہم اس سنگ دل صیاد کے
اشک ہی لیتا ہے میرا آب و دانے کی خبر
ہم نہ جانیں کس طرف کعبہ ہے اور کیدھر ہے دیر
ایک رہتی ہے یہی اس در پہ جانے کی خبر
ہر گل داغ جنوں پر اور ہے کچھ آب و رنگ
پھیر ہے گلشن میں گویا گل کے آنے کی خبر
آج سینے میں مرے دل ہے نپٹ ہی بے قرار
دے ہے حسرتؔ غیر کے گھر اس کے جانے کی خبر
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |