جان و دل ہیں اداس سے میرے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
جان و دل ہیں اداس سے میرے
by میر حسن دہلوی

جان و دل ہیں اداس سے میرے
اٹھ گیا کون پاس سے میرے

کوئی بھی اب امید باقی ہے
پوچھیو داغ یاس سے میرے

سب کی عرضی سے خوش ہو تم لیکن
ہو خفا التماس سے میرے

شاید اٹھنے کا قصد تم نے کیا
اڑ چلے کچھ حواس سے میرے

عیش مجھ تک تو پہنچے تب جو ٹلے
فوج غم آس پاس سے میرے

دور ہی دور پھرتے ہیں کچھ بخت
اب تو امید و یاس سے میرے

کیا میں ٹھہراؤں اس کو دل میں حسنؔ
ہے وہ باہر قیاس سے میرے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse