جان نکلے گی مری جان بڑی مشکل سے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
جان نکلے گی مری جان بڑی مشکل سے
by ریاض خیرآبادی

جان نکلے گی مری جان بڑی مشکل سے
ہوگی مشکل مری آسان بڑی مشکل سے

وہ مرے گھر رہے مہمان بڑی مشکل سے
رات نکلے مرے ارمان بڑی مشکل سے

آنکھیں تلووں سے ملیں لے کے قدم آنکھوں پر
راہ پر آئے نگہبان بڑی مشکل سے

تھا بہت ان کو گلوری کا اٹھانا مشکل
دست نازک سے دیا پان بڑی مشکل سے

بڑھ کے درباں نے لیا آج بھی دامن میرا
کل چھڑایا تھا گریبان بڑی مشکل سے

صحبت بد سے بچانے کا بتایا سب حال
آج مانے مرے احسان بڑی مشکل سے

ظلم کو لطف سے تعبیر کریں گے دم حشر
جور سے ہوں گے پشیمان بڑی مشکل سے

کوئی کافر ہو جو کل جائے سوئے دیر بتاں
کہ بچا آج ہی ایمان بڑی مشکل سے

نہ رہے میں نے کلیجے میں جو رکھنا چاہا
دل میں ٹھہرے ترے پیکان بڑی مشکل سے

دور ابھی منزل مقصود ہے کالے کوسوں
کچھ ہوئے قطع بیابان بڑی مشکل سے

مان لیتے ہیں وہ مشکل سے بھی مشکل کوئی بات
کبھی آساں سے بھی آسان بڑی مشکل سے

مے بہت رک کے مرے حلق سے اترے دم نزع
ابھی مشکل ہوئی آسان بڑی مشکل سے

بے شب وصل یہ انداز نکلتے ہی نہیں
زلف ہوتی ہے پریشان بڑی مشکل سے

دھار تلوار کی تھی جادۂ باریک نہ تھا
ہے ہوا حشر کا میدان بڑی مشکل سے

رہتے ہیں ایسے ہی انسان فرشتے بن کر
آدمی بنتے ہیں انسان بڑی مشکل سے

دل بسمل میں کچھ اس طرح ہوئے تھے پیوست
ٹوٹ کر نکلے ہیں پیکان بڑی مشکل سے

یہی انداز یہی وضع جو رکھوگے ریاضؔ
لوگ سمجھیں گے مسلمان بڑی مشکل سے

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse