جان میں جان تبھی قیس کے بس آتی ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
جان میں جان تبھی قیس کے بس آتی ہے
by میر حسن دہلوی

جان میں جان تبھی قیس کے بس آتی ہے
ناقۂ لیلیٰ کی جب بنگ جرس آتی ہے

ساتھ دیکھوں ہوں کسی کے جو کسی دلبر کو
میں بھی جی رکھتا ہوں مجھ کو بھی ہوس آتی ہے

قیس و فرہاد کے رونے کی جب آ جاتی ہے لہر
کوہ و صحرا پہ گھٹا جا کے برس آتی ہے

زندگی ہے تو خزاں کے بھی گزر جائیں گے دن
فصل گل جیتوں کو پھر اگلے برس آتی ہے

جب قفس میں تھے تو تھی یاد چمن ہم کو حسنؔ
اب چمن میں ہیں تو پھر یاد قفس آتی ہے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse