جان اپنی چلی جائے ہے جائے سے کسو کی

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
جان اپنی چلی جائے ہے جائے سے کسو کی
by عبدالرحمان احسان دہلوی

جان اپنی چلی جائے ہے جائے سے کسو کی
اور جان میں جان آئے ہے آئے سے کسو کی

وہ آگ لگی پان چبائے سے کسو کی
اب تک نہیں بجھتی ہے بجھائے سے کسو کی

بجھنے دے ذرا آتش دل اور نہ بھڑکا
مہندی نہ لگا یار لگائے سے کسو کی

کیا سوئیے پھر غل ہے در یار پہ شاید
چونکا ہے وہ زنجیر ہلائے سے کسو کی

کہہ دو نہ اٹھائے وہ مجھے پاس سے اپنی
جی بیٹھا ہی جاتا ہے اٹھائے سے کسو کی

جب میں نے کہا آئیے من جائیے بولے
ہم اور بھی روٹھیں گے منائے سے کسو کی

چپی میں جو کچھ بات کی میں نے تو یہ بولے
ہم تو نہیں دبنے کے دبائے سے کسو کی

یارو نہ چراغ اور نہ میں شمع ہوں لیکن
ہر شام کو جلتا ہوں جلائے سے کسو کی

پاتا نہیں گھر اس کا سمجھتا ہی نہیں ہے
اس بیت کے معنی بھی بتائے سے کسو کی

جب اس سے کہا میری سفارش میں کسو نے
حاصل بھی رلائے سے کڑھائے سے کسو کی

اک طعن سے یہ ہنس کے لگا کہنے کہ بے شک
ہم رولتے موتی ہیں رلائے سے کسو کی

کہتا ہے کہ احساںؔ نہ کہے گا تو سنے گا
مطلع یہ کہا میں نے کہائے سے کسو کی

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse