جان اس کی اداؤں پر نکلتی ہی رہے گی

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
جان اس کی اداؤں پر نکلتی ہی رہے گی
by وحشت کلکتوی

جان اس کی اداؤں پر نکلتی ہی رہے گی
یہ چھیڑ جو چلتی ہے سو چلتی ہی رہے گی

ظالم کی تو عادت ہے ستاتا ہی رہے گا
اپنی بھی طبیعت ہے بہلتی ہی رہے گی

دل رشک عدو سے ہے سپند سر آتش
یہ شمع تری بزم میں جلتی ہی رہے گی

غمزہ ترا دھوکا یوں ہی دیتا ہی رہے گا
تلوار ترے کوچے میں چلتی ہی رہے گی

اک آن میں وہ کچھ ہیں تو اک آن میں کچھ ہیں
کروٹ مری تقدیر بدلتی ہی رہے گی

انداز میں شوخی میں شرارت میں حیا میں
واں ایک نہ اک بات نکلتی ہی رہے گی

وحشتؔ کو رہا انس جو یوں فن سخن سے
یہ شاخ ہنر پھولتی پھلتی ہی رہے گی

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse