جانے والے نہ ہم اس کوچے میں آنے والے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
جانے والے نہ ہم اس کوچے میں آنے والے
by ریاض خیرآبادی

جانے والے نہ ہم اس کوچے میں آنے والے
اچھے آئے ہمیں دیوانہ بنانے والے

تو سلامت رہے دل میں اتر آنے والے
ترے صدقے مری آنکھوں میں سمانے والے

ایک ہم لاکھ حسینوں سے عوض لینے کو
ایک دل لاکھ حسیں دل کے ستانے والے

جب ملے خضر ملے ہم سے اسی وضع کے ساتھ
ہائے کیا لوگ ہیں یہ اگلے زمانے والے

تیر مژگاں میں چھدے کب جگر و دل دیکھے
تیری ناوک تو ہیں بے پر کی اڑانے والے

بن گیا میرے لئے حشر کا دن وصل کی رات
مل گئے آج مجھے میرے ستانے والے

نگہ ناز ادھر ہے نگہ شوق ادھر
ہم تو بجلی کو ہیں بجلی سے لڑانے والے

باندھ دے گی یہ حنا ہاتھ جو رحم آئے گا
کیا بجھائیں گے لگی آگ بجھانے والے

بار عصیاں سے مرے ساتھ پسے اور بھی چار
دب گئے ہائے جنازے کے اٹھانے والے

ساتھ صحبت کے وہ سب حرف و حکایات کئے
سننے والے ہیں نہ افسانے سنانے والے

کم سنی پر ترس آیا نہ شب وصل ریاضؔ
اف رے بے درد حسینوں کے ستانے والے

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse