جانے لگے ہیں اب دم سرد آسماں تلک

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
جانے لگے ہیں اب دم سرد آسماں تلک
by مظفر علی اسیر

جانے لگے ہیں اب دم سرد آسماں تلک
ٹھنڈی سڑک بنی ہے یہاں سے وہاں تلک

جلتے ہیں غم سے جان و دل و سینہ و جگر
چاروں طرف ہے آگ بجھاؤں کہاں تلک

بیمار ہو گیا ہوں میں قحط شراب سے
للہ لے چلو مجھے پیر مغاں تلک

مسجد سے دور ہے یہ دکاں مے فروش کی
آتی نہیں ہے کان میں بانگ اذاں تلک

نکلا جو دم تو راحت و آرام ہے اسیرؔ
آوارگی ہے جسم کی روح رواں تلک

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse