جانوں میں نہ جبکہ نام اس کا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
جانوں میں نہ جبکہ نام اس کا
by میر محمدی بیدار

جانوں میں نہ جبکہ نام اس کا
پوچھوں کیا کہہ مقام اس کا

ہے دل کوں تپش کچھ اور ہی آج
لاتا ہے کوئی پیام اس کا

نامہ کہ تو کیا جگہ کہ قاصد
لایا ہی نہ یاں سلام اس کا

مت لیجیو دل تو چاہ کا نام
قتل عاشق ہے کام اس کا

ہو جائے گا پائمال بیدارؔ
دیکھے گا اگر خرام اس کا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse