جام نہ رکھ ساقیا شب ہے پڑی اور بھی

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
جام نہ رکھ ساقیا شب ہے پڑی اور بھی
by نظیر اکبر آبادی

جام نہ رکھ ساقیا شب ہے پڑی اور بھی
پھر جہاں کٹ گئے چار گھڑی اور بھی

پہلے ہی ساغر میں تھے ہم تو پڑے لوٹتے
اتنے میں ساقی نے دی اس سے کڑی اور بھی

پلکیں تو چھیدے تھیں دل مارے تھی برچھی نگاہ
ابرو نے اس پر سے ایک تیغ جڑی اور بھی

کچھ تپش دل تھی کچھ سنتے ہی فرقت کا نام
آگ سی ایک آگ پر آن پڑی اور بھی

میری شب وصل کی صبح چلی آتی ہے
روک لے اس دم فلک ایک گھڑی اور بھی

گرچہ ابھر آئے ہیں تن پہ مرے پر میاں
اتنی لگائیں جہاں ایک چھڑی اور بھی

کیا کہوں اس شوخ کی واہ میں خوبی نظیرؔ
سنتے ہی اس بات کے ایک جڑی اور بھی

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse