جام لا جام کہ آلام سے جی ڈرتا ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
جام لا جام کہ آلام سے جی ڈرتا ہے
by اختر انصاری اکبرآبادی

جام لا جام کہ آلام سے جی ڈرتا ہے
اثر گردش ایام سے جی ڈرتا ہے

لب پہ اب عارض و گیسو کے فسانے کیا ہوں
فتنہ ہائے سحر و شام سے جی ڈرتا ہے

تجھ کو میں ڈھونڈھتا پھرتا ہوں در و بام سے دور
اب تجلئ در و بام سے جی ڈرتا ہے

گل کھلائے نہ کہیں فتنۂ دوراں کچھ اور
آج کل دور مے و جام سے جی ڈرتا ہے

نگہ مست کے قربان مری سمت نہ دیکھ
موجۂ بادۂ گلفام سے جی ڈرتا ہے

چھوڑ کر راہ میں بت خانے گزر جاتا ہوں
ہوش میں جلوۂ اصنام سے جی ڈرتا ہے

رات کی ظلمتیں بڑھتی ہی چلی جاتی ہیں
اخترؔ اپنا تو سر شام سے جی ڈرتا ہے

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse